اٹھراہ کا الزام کسی بھی عورت کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کی تشخیص ڈاکٹروں کے بجاۓ بڑی بوڑھیاں یا پھر نا تجربہ کار اور غیر مستند دائیاں کرتی ہیں اور اس کا علاج بھی کسی ڈاکٹر سے کروانے کے بجاے بنگالی بابوں سے یا تعویز گنڈوں سے کروایا جاتا ہے
اسما جب شادی کے پانچ سال بعد ساتویں دفعہ امید سے ہوئی تو خوش ہونےکے بجاۓ اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔ کمزور اور مدقوق سی اسما کی عمر صرف 25 سال تھی ۔ بیس سال کی عمر میں جب شادی کے فورا بعد وہ امید سے ہوئي تو اس وقت اس کی خوشی کا کوئی حساب نہ تھا مگر ساتویں مہینے ہی اس کے پیٹ کے اندر ہی اس کے پہلے بیٹے کی موت نے اس کی اس خوشی پر پانی پھیر دیا ۔
اس وقت اس حمل کے ضائع ہونے کی بظاہر کوئی وجہ سامنے نہ آسکنے کے بعد اس نے صرف صبر کا دامن تھام لیا ۔ چند ہی مہینوں کے بعد جب دوسری بار امید سے ہونے کی خوشخبری اس کو ملی تو اس نے پہلے سے زیادہ احتیاط کے دامن کو تھام لیا
مگر اس بار بھی اس کا بیٹا دنیا میں صرف چند سانسیں ہی لے سکا اور اس کی گود میں آنے سے قبل ہی دم توڑ گیا ۔ اپنے بیٹے کو گود میں لینے کی حسرت اس کے دل ہی میں رہ گئی اور اس کی بے ہوشی کے دوران ہی اس کے اس نیلے پڑتے بچے کو دفنا دیا گیا
اس بیٹے کی موت نے اس کے ارد گرد کے لوگوں کو اس پر اٹھراہ کے مرض میں مبتلا ہونے کا الزام لگانے کا موقع فراہم کر دیا ۔ ہر ملنے والا اس کے منحوس اور بدقسمت قرار دینے لگا جو اپنے ہی دونوں بیٹوں کو کھا گئی
لوگوں کے لگاۓ گۓ اس الزام کو غلط ثابت کرنے کے لیۓ اسما پے در پے کوشش کرتی رہی اور مختلف ادوار میں اس کے بچے موت کے منہ میں جاتے رہے ۔ ہر عطائی حکیم ، دم درود یہاں تک کہ ہر مزار پر اس نے ماتھا ٹیکا کہ اس کی گود بھری ہو سکے ۔ مگر ہر ایک نے اس کو اٹھراہ کا شکار قرار دیا
اٹھراہ کی بیماری سے کیا مراد ہے
اٹھراہ کی بیماری کا میڈیکل سائنس میں کوئی وجود نہیں ہے جب کہ حکیمی تشریح کے مطابق وہ عورت جس کے بچے پیدائش سے لے کر ابتدائی آٹھ سالوں کے عمر کے دوران مر جائيں اٹھراہ کی مریض قرار دی جاتی ہے
اٹھراہ کی علامات
اٹھراہ کے مرض کے حوالے سے مختلف آرا ہیں کچھ لوگوں کے مطابق اٹھراہ سے مرنے والے بچے کا رنگ مرنے سے پہلے تبدیل ہو جاتا ہے ۔ بچہ نیلے یا کالے رنگ کا ہو جاۓ تو اس کی موت کا سبب یہی بیماری ہوتی ہے
اس حوالے سے بعض افراد کا یہ بھی کہنا ہوتا ہے کہ بعض اوقات یہ بیماری صرف لڑکوں کی پیدائش کے وقت ہوتی ہے اور اس عورت کی بیٹیاں حیات رہتی ہیں ۔
اٹھراہ کی وجوہات
میڈیکل سائنس میں اس بیماری کے حوالے سے کچھ تفصیلات موجود نہیں ہیں ۔ میڈیکل سائنس کے مطابق یہ درحقیقت اسقاط حمل ہی کے زمرے میں آتا ہے جس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں اور ان وجوہات کے علاج کے ذریعے اس بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے
جب کہ یونانی حکما کے نزدیک یہ بیماری درحقیقت ماں کے خون کے فساد کے سبب ہوتی ہے ۔ ماں کے خون میں موجود زہریلے مادے بچے کو اتنا کمزور کر دیتے ہیں کہ وہ پروان نہین چڑھ سکتا ہے اور پیدا ہونے سے پہلے یا پیدا ہونے کے کچھ عرصے کے بعد ہلاک ہو جاتا ہے
اٹھراہ کے معاشرتی اثرات
اٹھراہ میں مبتلا عورت کو منحوس قرار دیا جاتا ہے اور اس کا سایہ حاملہ عورت ، نئی شادی شدہ عورت کے لیۓ خراب قرار دیا جاتا ہے اور اس وجہ سے ایسی خواتین کو شادی بیاہ کی تقریبات میں دلہنوں سے دور رکھا جاتا ہے اور اس کو اچھوت بنا دیا جاتا ہے
اٹھراہ کے نفسیاتی اثرات
اس بیماری کا شکار عورت ایک احساس جرم اور تنہائی کا شکار ہو جاتی ہے وہ بار بار حاملہ ہونے کی کوشش کرتی ہے اور اس کے بعد حمل کے ضائع ہونے کے مدمے سے گزرتی ہے ۔ اور اس وقت میں اس کے ساتھ ہمدردی کرنے اور اس کی دلجوئی کرنے کے بجاۓ سب لوگ اس پر الزام لگا دیتے ہیں جس سے وہ مذید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے ۔ اور اس کا اثر اس کے ہر آنے والے بچے پر پڑتا ہے
حمل کے ٹہرانے کے صحیح وقت اور طریقے کو جاننے کے لیۓ یہاں کلک کریں
اٹھراہ کی حقیقت
یہ بیماری حقیقی معنوں میں کوئی وجود نہیں رکھتی ہے ۔ درحقیقت حمل کا ٹہرنا اور اس کا کامیاب ہونا ایک پیچیدہ عمل ہوتا ہے جس میں مرد اور عورت دونوں کے کروموسوم کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے
اس کے بعد حمل کے ٹہر جانے کے بعد نو ماہ کے اندر اس بچے کی تکمیل بھی کئی مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں ماں کی صحت ، اس کی بچے دانی کی گنجائش اس کے خون کے اندر شکر کی مقدار اور مرد عورت کے کروموسوم کا ایک دوسرے سے مطابقت خصوصی اہمیت کی حامل ہوتی ہے
ان میں سے کسی بھی چیز میں خرابی حمل کے ضائع ہونے کا باعث بن سکتی ہے جن میں سے بہت سارے مسائل باقاعدہ کسی اچھے ماہرامراض نسواں کے ڈاکٹر کے علاج سے درست ہو سکتے ہیں ایسے کسی بھی مسلے کی صورت میں مستند اور تجربہ کار ڈاکٹروں سے رہنمائی کے لیۓمرہم ڈاٹ پی کے کی ایپ ڈاون لوڈ کریں یا پھر 03111222398 پر رابطہ کریں