کلیفٹنگ، میڈیکل کی اصطلاح میں حمل کے دوران بچے کے تالو اور ہونٹ پھٹے ہوئے ہونے کو کہتے ہیں۔ کلیفٹنگ یعنی ہونٹ اور پھٹ ے ہوئے تالو چہرے اور منہ کی خرابیاں ہیں۔ جو حمل کے ابتدائی دنوں میں ہوتے ہیں، جب بچہ ماں کے پیٹ میں نشوونما پا رہا ہوتا ہے۔ کلیٖفٹنگ بنیادی طور پر منہ یا ہونٹوں میں ٹشوز کے ناکافی ہونے کی وجہ سے اور دستیاب ٹشوز کا ٹھیک طرح سے آپس میں نہ جڑنے کی وجہ سے واقع ہوتی ہے۔
کلیفٹنگ کی وجہ سے اوپری ہونٹ کے دونوں اطراف جسمانی طور پر پھٹ جاتے ہیں یا علیحدہ ہو جاتے ہیں اور اوپی ہونٹ کی جلد میں ایک تنگ خلا ظاہر ہو جاتا ہے۔ یہ علیحدگی اکثر ناک کی بنیاد سے باہر ہوتی ہے۔ اور اس میں اوپری مسوڑھوں کی ہڈیاں شامل ہوتی ہیں۔ تالو کی کلیفٹنگ یا درار تالو دراصل منہ کی چھت میں شگاف ہے۔
پھٹے ہوئے تالو میں سخت تالو (منہ کی چھت کا آگے کا ہڈی والا حصہ) اور/یا نرم تالو (منہ کی چھت کا نرم پچھلا حصہ) شامل ہو سکتا ہے۔ کلیفٹنگ والے ہونٹ اور تالو منہ کے ایک یا دونوں طرف ہو سکتے ہیں۔ چونکہ ہونٹ اور تالو الگ الگ نشوونما پاتے ہیں، اس لیے یہ ممکن ہے کہ شگاف تالو کے بغیر ہونٹ، کٹے ہوئے ہونٹ کے بغیر پھٹے ہوئے تالو، یا دونوں ایک ساتھ ہوں۔
کلیفٹ والے ہونٹ، تالو کے ساتھ یا اس کے بغیر، ہر سال 700 میں سے ایک بچے کو متاثر کرتے ہیں۔ امریکی بچوں میں کلیفٹ چوتھا سب سے عام پیدائشی نقص ہے جو ایشیائی، لاطینی یا مقامی امریکی نسل کے بچوں میں زیادہ کثرت سے پایا جاتا ہے۔ لڑکوں میں کلیفٹنگ لڑکیوں کے مقابلے میں، دو گنا زیادہ ہوتی ہے۔
کلیفٹنگ کی وجوہات
زیادہ تر معاملات میں، ہونٹ اور تالو کی کلیفٹنگ کی وجہ معلوم نہیں ہوتی اور ان واقعات کو روکا بھی نہیں جا سکتا۔ زیادہ تر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ دراڑیں جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل کے امتزاج کی وجہ سے ہیں۔ اگر کسی بہن بھائی، والدین یا رشتہ دار کو یہ مسئلہ درپیش ہو تو نوزائیدہ بچے میں کلیفٹنگ کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
ایک اور ممکنہ وجہ اس دوا سے متعلق ہو سکتی ہے جو ماں نے اپنے حمل کے دوران لی ہو۔ کچھ دوائیں ہونٹوں اور تالو کے پھٹنے یا کلیفٹنگ کا سبب بن سکتی ہیں۔ ان ادویات میں سے:
اینٹی سیزور/اینٹی کونولسنٹ دوائیں، ایکوٹین پرمشتمل ایکنی کی دوائیں، اور میتھوٹریکسیٹ، ایک ایسی دوا جو عام طور پر کینسر، گٹھیا اور چنبل کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہے۔جنین کے رحم میں نشوونما کے دوران وائرس یا کیمیکلز کے ایکسپوزر کے نتیجے میں ہونٹ اور تالو کی کلیفٹنگ بھی ہو سکتی ہے۔دوسری صورتوں میں، ہونٹ اور تالو کی کلفٹن کسی اور طبی پیچیدگی کا حصہ ہو سکتی ہے۔
آج ہم مرہم ڈاٹ کام کے قارئین کے لئے ایک ایسے جوڑے کی کہانی لائے ہیں جنہیں بچے کی پیدائش سے پہلے انکے بچے کی کلیفٹنگ کے بارے میں بتایا گیا گیا تھا۔ تو آئیے اس جوڑے کی کہانی پڑھتے ہیں۔
ایک پرجوش، پرامید جوڑا
کسی جوڑے کے لیے اس سے زیادہ خوشی اور سرشاری کی کوئی چیز نہیں ہے کی جب ان کو نئے آنے والے بچے کی خبر دی جائے۔ سارہ ہیلر جب امید سے ہوئیں تو وہ اور اسکے شوہر کرس بھی اپنے بچے کی پیدائش کے انتظار کی خبرمیں خوشی سے کھوئے ہوئے تھے۔ اور اس کی آمد کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔
دل شکن اطلاع
سارہ اور کرس اپنے ننھے مہمان کی آمد کے استقبال میں مگن تھے کہ حمل کے 24ویں ہفتے میں ڈاکٹروں نے ان کو پریشان کن اطلاع دی کہ ان کا بچہ چہرے کی خرابی یعنی کلیفٹنگ کے ساتھ پیدا ہوگا۔
والدین کا کلیفٹنگ والے بچے کو ضائع کرنے سے انکار
گو کے اپنے بچے کی کلیفٹنگ کی خبر نے والدین کی خوشی کو کچل دیا لیکن انکا اپنے بچے کے لیے محسوس کرنے کا انداز کبھی نہیں بدلا۔ جب ڈاکٹروں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے ‘خراب’ بچے کا اسقاط حمل کرنا چاہتے ہیں، تو سارہ اور کرس نے نے محض بچے کی کلیفٹنگ کی وجہ سےاسقاط حمل کرنے سے انکار کر دیا۔ انہیں اپنے بچے سے ہر حال اور شکل میں محبت تھی اور اسے قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں
باہمت اور پرعزم والدین
جب والدین پہلی بار اپنے بچے کی کسی معذوری کے بارے میں جانتے ہیں، تو وہ اکثر خوفزدہ ہوتے ہیں ۔ وہ بچے کے مستقبل سے ڈرتے ہیں۔ انکو مختلف وہم گھیر لیتے ہیں کہ نجانے انکا بچہ اور وہ خود اس آزمائش سے کیسے گزریں گے ۔ مزید یہ کہ آیا اس کا علاج ہو سکے گا وغیرہ۔ لیکن سارہ اور کرس و جب انکے بچے کی کلیفٹنگ کے بارے میں بتایا گیا تو وہ پرعزم تھے، اور دونوں اپنی استطاعت کے مطابق اپنے بچے کو تمام تر محبت اور شفقت سے نوازنے کے لئے تیار تھے اور اس سلسلے میں سب کچھ کرنے کو تیار تھے۔
سارہ کے الٹراساؤنڈ سے ظاہر ہوا کہ بروڈی کے ہونٹ اور تالو میں دو طرفہ دراڑ/ کلیفٹ ہے۔ حمل کے پہلے 6 سے 10 ہفتوں کے دوران فیٹس کے اوپری جبڑے کی ہڈیاں مل کر منہ کی چھت اور اوپری ہونٹ بناتی ہیں۔ جب ٹشو فیوز نہیں ہوتا ہے، تو تالو کا کلفٹ ہوتا ہے۔اکثر، یہ حالت بچے میں صحت کے دیگر مسائل کو جنم دیتی ہے، حالانکہ آج کل یہ زندگی کے معیار کو مزید متاثر کیے بغیر قابل آپریشن ہے۔
سارہ اور کرس نے اپنے بچے کو رکھنے کا عزم کیا تھا چاہے کچھ بھی ہو۔ وہ ننھے بروڈی سے پیار کرتے تھے حالانکہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ایک بار جب وہ اس کا دنیا میں استقبال کریں گے تو وہ کیسا نظر آئے گا۔سارہ کہتی ہیں کہ وہ اسے ہر طرح کی دیکھ بھال فراہم کرنے کے لئے، کچھ بھی کرنے کے لیے تیار تھے۔ یہی نہیں بلکہ ان کے نزدیک صرف ایک چیز یقینی تھی، کہ بروڈی اب تک کا سب سے پیارا بچہ ہوگا، جس کے پاس پیار کرنے والے ماں اور باپ ہیں جو کبھی بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔
کلیفٹنگ کے بارے میں آگاہی
سارہ نہ صرف خود حقیقت پسند خاتون ہیں بلکہ انھوں نے دوسری ماوں میں بھی اس سلسلے میں آگاہی اجاگر کرنے کا فیصلہ کیا۔بروڈی کی والدہ سارہ نے کہتی ہیں کہ:
“حالات سے قطع نظر اپنے بچے پر فخر کرنا ٹھیک ہے۔ ہم عام طور پر فیس بک/انسٹاگرام اکاؤنٹس پر بچوں کی الٹراساؤنڈ/نوزائیدہ/پہلے سال کی جو تصاویر دی جاتی ہیں اسے تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ ہم کلیفٹنگ یعنی پھٹے ہونٹوں اور تالوؤں کے بارے میں آگاہی پھیلانا چاہتےتھے ۔”وہ جانتے تھے کہ کیلفٹنگ کی وجہ سے بچے کو سانس لینے، کھانے، پینے اور یہاں تک کہ بات کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے اگر اس حالت کا جراحی سے علاج نہ کیا جائے۔
سارہ اور کرس کو اپنے بچے پر فخر تھا اور انہوں نے اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرکے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہا کہ مختلف ہونا اتنا برا نہیں ہے اور ہمیں اپنی جسمانی شکل کے باوجود ایک دوسرے کو قبول کرنا چاہیے۔ خوش قسمتی سے، زیادہ تر لوگ جو بروڈی کو دیکھنے آتے، انکا ردعمل محبت و شفقت سے معمور ہوتا تھا۔ یقیناً کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے تھے کہ بچے کے چہرے میں کیا خرابی ہے۔
سارہ کو اس وقت غصہ نہیں آتا تھا جب لوگ اسے روکتے اور اس سے اس کے بیٹے کی خرابی کے حوالے سے سوالات پوچھتے، اس کے برعکس، وہ خوش تھی کہ وہ لوگوں کو اس کلیفٹنگ کے بارے میں آگاہ کر سکتی ہے۔سارہ کہتی ہیں: “میں نے تصادم پیدا کرنے کے بجائے تعلیم دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ میں مستقبل میں بروڈی سے بھی یہی چاہوں گی۔ میں چاہوں گی کہ وہ دوسروں میں آگاہی پھیلائے ، اور کلیفٹ والے ان چھوٹے بچوں کا وکیل بنے جو ابھی تک اپنے لئے خود آواز نہیں اٹھا سکتے۔”
کمیونٹی کی طرف سے امداد
جیسے کہ کہتے ہیں کہ ہمت مرداں، مدد خدا۔ اسی مقولے کے مصادق سارہ اور کرس کی اولوالعزمی کا صلہ کمیونٹی کی طرف سے محبت و مالی اعانت کی صورت میں ملا۔
ایک رات ایک ریسٹورنٹ میں ڈنر کرتے ہوئے ویٹریس سارہ کے پاس آئی اور اسے ایک تہہ شدہ کاغذ دے دیا۔ جب اس نے اسے کھولا تو وہ اپنے آنسو روک نہ سکی۔ $1000 کا ایک چیک تھا اور ایک پیغام تھا جس میں کہا گیا تھا “خوبصورت بچے کے لیے۔” یہ ایک مکمل اجنبی کی طرف سے آیا ہے اور سارہ نے کہا کہ اس طرح کے کام نے انسانیت پر ان کا اعتماد بحال کیا۔
جب خوبصورت بروڈی کی سرجری کا وقت آیا تو انہوں نے اس رقم کو اخراجات کا کچھ حصہ پورا کرنے کے لیے استعمال کیا۔سرجری کامیاب رہی اور بچہ بروڈی ٹھیک ہو گیا۔ اسے مستقبل میں دیگر سرجریوں کی ضرورت ہے، لیکن والدین اس کی ترقی سے خوش ہیں۔ سارہ نے کہا: “اس تجربے نے ہمیں دکھایا ہے کہ کلیفٹ کمیونٹی کتنی مضبوط ہے۔ ہم سے ملک بھر کے لوگوں نے رابطہ کیا ہے۔ وہ ہمارے لیے دعا کر رہے ہیں اور اگر ہمیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو ہم سے رابطہ کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔”
بروڈی سرجری کے بعد انتہائی خوبصورت لگ رہا ہے اور اس کی ماں اور والد خوش ہیں کہ انہوں نے اسے برقرار رکھنے کا صحیح فیصلہ کیا جب ہر ایک کا خیال تھا کہ ان کو اسقاط حمل کر دینا چاہئے۔
میں مبین آفتاب اردو کانٹنٹ رائٹر ، میں تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوں۔ ویسے تو عمر کے لحاظ سے میں 32 سال کا ہوں پر تجربے کے اعتبار سے اپنی عمر سے کئی گنا بڑا ہوں میں ایک بچی کا باپ ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہماری نئی نسل اردو کو وہ مقام دے جو بحیثیت ایک قومی زبان اس کا حق ہے۔