پاکستانی عوام کے لیے ہر نیا دن نئے خدشات اور نئے مسائل لے کر آتا ہے۔صحت کے شعبہ میں جس طرح ہماری حکومت نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں یہی وجہ ہے کہ آئے دن نت نئے امراض کی وجہ سے کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے ۔کانگو فیور کے چند مریضوں کی شناخت نے پورے پاکستان میں خوف و ہراس کی فضا قائم کر دی ہے۔
پاکستان میں 2002 میں کانگو وائرس کی وجہ سے سات افراد لقمہ اجل بنے تھے جن میں ایک نوجوان لیڈی ڈاکٹر اور 4 کمسن بچے بھی شامل تھے۔ستمبر 2010میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ میں کانگو وائرس کا نیا کیس رپورٹ کیا گیا۔بروقت طبی امداد اور مرض تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے اس وباء پر قابو پانا مشکل ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 100 سے زائد کیسس سامنے آگئے اور شرح اموات 10%سے ذیادہ رہی۔محکمہ صحت کے مطابق 2015 میں کانگو وائرس کے56 کیسزرپورٹ ہوئے جن میں 18 خواتین بھی شامل تھیں اور اس خطرناک وائرس سے13مریضوں نے دم توڑا۔
متعلقہ افسران نے عوام میں آگہی اور شعو ر اجاگر کرنے کی بجائے حسب معمول چپ سادھ رکھی ہے کیوں کہ ڈینگی کی آڑ میں جس طرح اربوں روپے اڑائے گئے اسی طرح کانگو فیور کے پھیلنے کی وجہ سے بھی اربوں کے فنڈز ملنے کی امید ہے۔
کانگو وائرس کیا ہے ؟
ایک مہلک بیماری ہے جو ٹک )ایک قسم کا کیڑا (کے کاٹنے کی وجہ سے پھیلتی ہے ۔ کانگو وائرس ایک وائرل انفیکشن ہے جس کی 30 سے زیادہ ممالک میں تشخیص کی گئی ہے۔
کانگو وائرس سب سے پہلے 1949 میں کریمیا میں سامنے آیا۔اسی وجہ سے اس کا نام کریمین رکھا گیا۔یہ وائرس ذیادہ تر افریقی اور جنوبی امریکہ, مشرقی یورپ ایشیاء اور مشرقی وسطی میں پایا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگو سے متاثرہ مریض کی شناخت سب سے پہلے انہی علاقوں سے ہوئی۔اوراسی وجہ سے اس بیماری کو افریقی ممالک کی بیماری بھی کہا جاتا ہے۔
:کانگو وائرس کی اقسام
ڈینگی وائرس (Dengue)
ایبولا وائرس (Ebola Virus)
لیسا وائرس (Lassa Virus)
ریفٹی ویلی وائرس (Riftvally Virus)
:کانگو بیماری تین طرح کے وائرس سے پھیلتی ہے
وائرس زدہ مریض یا جانور کے خون سے
وائرس زدہ سرنج کے استعمال سے
جانوروں میں پائے جانے والے کیڑوں کا خون انسانی جسم سے چھوجانے سے یا کیڑے کے کاٹنے سے
ماہرین صحت اور معالجین کے مطابق کانگو وائرس Tick)ایک قسم کا کیڑا) مختلف جانور وں جیسے بکرے,گائے, بھینس اور اونٹ کی جلد پر پائے جاتے ہیں۔ٹکس(Ticks)جانور کی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستا رہتا ہے اور بیماری کے پھیلاؤ میں اہم کردارادا کرتا ہے۔یہ کیڑا اگر انسان کو کاٹ لے یا جانور ذبح کرتے وقت بے احتیاطی سے قصائی کے ہاتھ پر کٹ لگ جائے تو یہ وائرس انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے۔یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں بھی منتقل ہو جاتا ہے اسی لیے اسے چھوت کی بیماری بھی کہا جاتا ہے۔اگر بروقت طبی امداد نہ دی جائے تو مریض ایک ہفتہ کے اندر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
:علامات
تیز بخار
سر درد, بھوک میں کمی , نقاہت, کمزوری, غنودگی
منہ میں چھالے اور آنکھوں میں سوجن
جسم میں وائٹ سیلز کی تعداد میں کمی
جسم پر سرخ رنگ کے نشانات اور دھبے
مسوڑوں اور بڑی آنت سے خون کا نکلنا
:احتیاطی تدابیر
کیمیائی دوا کاسپرے کروایاجائے
کانگو سے متاثرہ مریض سے ہاتھ نہ ملائیں
مریض کی دیکھ بھال کرتے وقت دستانے پہنے
مریض کی عیادت کے بعداچھی طرح ہاتھ دھوئیں
لمبی آستین والی قمیض پہنیں
ہلکے رنگ کے لباس کا استعمال کیا جائے
جانور ذبح کرنے سے پہلے طبعی معائنہ کروایا جائے
حکومت پاکستان کی ہدایات پر تین سال قبل کانگو وائرس پر تحقیق کا آغاز کیا گیا تھا اس سلسلے میں ڈاکٹروں اور ماہرین پر مشتمل کچھ ٹیمیں بھی تشکیل دی گئیں ہیں جو دن رات اس مرض سے نجات کے لیے کوشاں ہیں۔حکومتی اداروں کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو احتیاطی تدابیر اختیار کریں تاکہ مرض سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔
You find the Doctors in Pakistan with Marham.pk.