حالت حمل میں جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے حاملہ عورت میں جسمانی تبدیلیاں بھی ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ تبدیلیاں روٹین کو متاثر کرنا شروع ہو جاتی ہے ۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے بھوک پیاس اٹھنا بیٹھنا یہاں تک کہ سونا بھی دشوار ہو جاتا ہے
بے سکونی کے ان دنوں میں بعض اوقات خواتین نیند میں ایسی حالت میں بھی لیٹ جاتی ہیں جو ان کے اور ان کے ہونے والے بچے کے لیۓ بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اس وجہ سے حالت حمل میں پرسکون نیند کے لیۓ کیے جانے والے کچھ اقدامات کے بارے میں ہم آپ کو آج بتائيں گے۔
۔ 1 حالت حمل میں پرسکون نیند کے اصول
حالت حمل میں عورت کو پرسکون نیند حاصل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
۔ 1 سونے سے قبل کیۓ جانے والے اقدامات
سونے سے پہلے کچھ عمل انجام دے کر سونے کی تیاری کی جا سکتی ہے جو پر سکون نیند کا باعث ہو سکتے ہیں ۔ اس کے لیے سونے سے قبل نیم گرم پانی سےغسل کریں ۔ کھلے اور آرام دہ کپڑے پہنیں اور بستر پر لیٹ کر سونے سے قبل پیروں کے تلوں پر تیل کا مساج کریں جس سے نیند پرسکون آتی ہے۔
۔ 2 بائيں کروٹ پر سوئيں
عام طور پر ماہرین کے مطابق حالت حمل میں پرسکون نیند کے لیۓ کروٹ کے بل سونا محفوظ ہوتا ہے خصوصا بائيں کروٹ پر سونے کے کئي فوائد ہیں ماہرین کے مطابق بائیں کروٹ سونے کی صورت میں دوران خون بہتر ہوتا ہے۔
خون کی سپلائی کا بنیادی انحصار جس خون کی نالی پر ہوتا ہے وہ بائيں کروٹ سونے کے نتیجے میں بہتر سپلائی دیتی ہے جس سے بچے کی نشونما بہتر ہو سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ بائيں جانب سونے کے نتیجے میں جگر اور گردوں پر دباؤ کم ہوتا ہے جس سے ان کو اپنے افعال انجام دینے میں آسانی ہوتی ہے ۔ جس سے صحت بہتر ہوتی ہے۔
۔ 3 سونے کے ٹائم ٹیبل پر عمل کریں
ہارمون کے نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے حالت حمل میں حاملہ عورت کی تمام روٹین متاثر ہوتی ہے ان تمام حالات میں اکثر خواتین یہ شکایت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ انہیں رات میں سونے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کہ بچےکی نشو ونما اور ماں کی صحت کے لیۓ پرسکون نیند بہت ضروری ہے۔
عام طور پر اکثر حاملہ خواتین رات بھر جاگنے کے بعد دن بھر آرام کرتی ہیں جس کی وجہ سے رات کو بے چینی ہونا ایک فطری عمل ہے اس وجہ سے اس بات کا خیال رکھیں کہ صحت مند حمل کے لیۓ ماں کا 7 سے 8 گھنٹے سونا ضروری ہوتا ہے مگر رات کی پرسکون نیند لینا بھی ضروری ہوتا ہے اس وجہ سے باقاعدہ خود کو دن بھر ایسی صحت مند ایکٹیوٹیز میں مصروف رکھیں جس کے سبب آپ تھک جائيں اور مقررہ وقت پر بستر پر لیٹیں اور سونے کی کوشش کریں باقاعدہ ٹائم ٹیبل بنا لینے سے سونے میں آسانی ہو سکتی ہے۔
۔ 4 سینے کی جلن سے بچنے کے لیے اقدامات
اکثر خواتین رات میں بے سکونی اور نیند نہ آنے کا سبب سینے میں ہونے والی جلن کو قرار دیتی ہیں جو کہ تیسرے مہینے کے بعد سے شروع ہو جاتی ہے اس جلن سے بچنے کے لیۓ اس بات کی عادت ڈالیں کہ صبح کا ناشتہ ڈٹ کر کریں مگر رات کو سونے سے قبل کم ازکم دو گھنٹے قبل کھانا کھا لیں اس کے علاوہ کھانے میں ہلکی پھلکی غذا کا انتخاب کریں ۔ کھانے کے بعد چالیس قدم ضرور چلیں یہ بھی ہاضمے کےعمل کو تیز کر دیتا ہے۔
۔ 5 حالت حمل میں پرسکون نیند کے لیۓ ان کاموں کو نہ کریں
حمل ٹھر جانے کے بعد پرسکون نیند کے لیے ان کاموں کو ہرگز نہ کریں۔
۔ 1 کمر کے بال نہ سوئيں
حالت حمل میں پہلے تین مہینوں میں کمرکے بل سونا اتنا نقصان دہ نہیں ہوتا ہے مگر تین مہینے کے بعد جب کہ بچے کا سائز بڑھ جاتا ہے اس وقت میں کمر کے بل سونا بچے اور ماں دونوں کے لیۓ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اس طرح سونے کی صورت میں ایک جانب تو بچے کو مکمل خون اور آکسیجن کی سپلائي میں رکاوٹ ہوتی ہے اور دوسری جانب ماں کو بھی متلی اور بدہضمی کی شکایت ہو سکتی ہے۔
۔ 2 سونے سے پہلے پانی نہ پیئيں
حالت حمل میں ہارمون کے نظام میں تبدیلی کے سبب اور بچہ دانی میں بچے کے سائز کے بڑھنے کی وجہ سے اکثر خواتین کے مثانے پر دباؤ پڑتا ہے جس کی وجہ سے بار بار پیشاب کی حاجت ہوتی ہے۔
رات کو سونے کے دوران بار بار پیشاب کی حاجت کی وجہ سے آنکھ کھلنے سے نہ صرف نیند خراب ہوتی ہے بلکہ دوبارہ سے سونے میں بھی مشکل ہوتی ہے اس وجہ سے سونے سے قبل پانی پینے مین احتیاط کریں ۔ اگر پیاس کی شدت زیادہ بھی ہو تو کم پانی پیئيں تاکہ بار بار اٹھنے سے نیند متاثر نہ ہو۔
۔ 3 چاۓ اور کافی سے دور رہیں
ایسے تمام مشروبات جن میں کیفین ہوتی ہے وہ حالت حمل میں بچے کے لیۓ نقصان دہ ہوتے ہیں اس کے علاوہ کیفین کے استعمال کے سبب اسٹریس ہارمون کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بے خوابی کی شکایت ہو سکتی ہے اس وجہ سے حالت حمل میں ان سے دور رہیں تو بہتر ہے۔
یاد رکھیں
حالت حمل میں حاملہ خواتین کے لیۓ نیند کی گولیوں کا استعمال خطرناک ہوتا ہے اس وجہ سے ان کو سونے کے لیۓ ایسے ہی ٹوٹکوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ صحت مند رہ سکیں ۔ اگر حالت حمل میں سونے میں دشواری کا سامنا ہو اور ان اقدامات سے بھی کوئی مدد نہ مل سکے تو اس صورت میں ماہر امراض نسواں سے رابطہ کریں اور ان سے رہنمائی حاصل کریں۔