لافنگ ڈیتھ یا کورو ایک نایاب اور مہلک اعصابی نظام کی بیماری ہے۔ اس کا سب سے زیادہ پھیلاؤ 1950 اور 1960 کی دہائی کے دوران نیو گنی کے پہاڑی علاقوں میں موجود لوگوں میں ہوا۔ جنازے کی رسومات کے دوران نعشوں پر کینبلزم انجام دینے سے اولین لوگوں کو یہ مرض لاحق ہوا۔
‘کرو’ نام کا مطلب ہے “تھکنا” یا “خوف سے کانپنا۔” بیماری کی علامات میں پٹھوں کا مروڑنا اور ہم آہنگی کا نقصان شامل ہے۔ دیگر علامات میں چلنے میں دشواری، غیر ارادی حرکت، رویے اور موڈ میں تبدیلی، ڈیمنشیا، اور کھانے میں دشواری شامل ہیں۔ کھانے میں دشواری غذائیت کی کمی کا سبب بن سکتا ہے۔ لافنگ ڈیتھ یا کورو کا کوئی معلوم علاج نہیں ہے۔ یہ مرض عام طور پر بیماری کےپہلے ایک سال کے اندر مہلک ہوتا ہے۔
لافنگ ڈیتھ کی شناخت اور مطالعہ نے کئی طریقوں سے سائنسی تحقیق میں مدد کی۔ یہ پہلی ‘نیورو ڈی جنریٹو’ بیماری تھی جو کسی متعدی ایجنٹ(ان فیکشیئس ایجنٹ) کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ اس نے بیماریوں کے ایک نئی کلاس کی تخلیق کی جس میں کریوٹزفیلڈ،جیکوب کی بیماری، گیرسٹمین، اسٹراسلر، شینکر بیماری، اور مہلک خاندانی بے خوابی شامل ہیں۔ آج بھی لافنگ ڈیتھ یا کورو کا مطالعہ نیوروڈیجنریٹیو بیماریوں سے متعلق تحقیق میں شامل ہوتا ہے۔
زیادہ عام اعصابی عوارض جیسے پارکنسنز کی بیماری یا فالج کی علامات کورو علامات سے ملتے جلتے ہو سکتے ہیں۔ ان میں شامل ہیں:
چلنے میں دشواری، ناقص کوآرڈینیشن، نگلنے میں دشواری، بولنے کی صلاحیت کا مبہم ہونا، مزاج اور طرز عمل میں تبدیلیاں، ڈیمنشیا، پٹھوں میں ہلچل اور جھٹکے،اشیاء کو سمجھنے میں ناکامی، بے ترتیب، زبردستی ہنسنا یا رونا۔
لافنگ ڈیتھ تین مراحل میں ہوتا ہے۔ یہ عام طور پر سر درد اور جوڑوں کے درد سے شروع ہوتا ہے۔ چونکہ یہ عام علامات ہیں، اس لیے شروعات میں اکثر اس مرض کی علامات کے طور پر تشخیص نہیں کئے جاتے۔ پہلے مرحلے میں، لافنگ ڈیتھ یا کورو والا شخص جسمانی کنٹرول میں کچھ کمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ انہیں توازن برقرار رکھنے اورچال ڈھال برقرار رکھنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔
دوسرے مرحلے میں متاثرہ شخص چلنے کے قابل نہیں رہتا۔ جسم میں جھٹکے اور غیر ارادی جھٹکے اور حرکت واضح طور پر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ تیسرے مرحلے میں، بیمار شخص عام طور پر بستر پر پڑا رہتا ہے اور بے قابو ہوتا ہے۔ وہ بولنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔
لافنگ ڈیتھ کے مریض ڈیمنشیا یا رویے کی تبدیلیوں کو بھی ظاہر کر سکتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنی صحت کے بارے میں بے فکر نظر آتے ہیں۔ کھانے اور نگلنے میں دشواری کی وجہ سے بھوک اور غذائیت کی کمی عام طور پر تیسرے مرحلے پر ہوتی ہے۔ یہ ثانوی علامات ایک سال کے اندر موت کا باعث بن سکتی ہیں۔ زیادہ تر لوگ نمونیا سے مرتے ہیں۔
لافنگ ڈیتھ یا کورو کے اسباب
لافنگ ڈیتھ یا کورو بیماریوں کے ایک ایسے طبقے سے تعلق رکھتا ہے جسے ٹرانسمیسیبل اسپونج فارم انسیفالوپیتھیز (ٹی ایس ایز )کہتے ہیں، جسے’ پرائینز ‘کی بیماریاں بھی کہتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر سیربیلم کو متاثر کرتا ہے یعنی آپ کے دماغ کا وہ حصہ جو جسم کی ہم آہنگی اور توازن کے لیے ذمہ دار ہے۔
زیادہ تر انفیکشن یا متعدی ایجنٹوں کے برعکس،بیکٹیریا، وائرس یا فنگس کی وجہ سے نہیں ہوتا ہے۔ متعدی، غیر معمولی پروٹین جو پرائینز کے نام سے جانا جاتا ہےلافنگ ڈیتھ کا سبب بنتا ہے۔ پرائینز زندہ جاندار نہیں ہیں اور دوبارہ پیدا نہیں ہوتے۔ یہ بے جان،بگڑی شکل والے پروٹین ہیں جو دماغ میں بڑھتے ہیں اور گٹھلی بناتے ہیں یوں دماغ کے معمول کے عمل کو روکتے ہیں۔پرائینز،کورو کی وجہ سے ہوتی ہے اور آپ کے دماغ میں سپنج نما سوراخ پیدا کرتی ہیں اور مہلک ہوتی ہیں۔
کوئی بھی شخص متاثرہ دماغ کو کھانے سے یا اس سے متاثرہ کسی کے کھلے زخموں یا زخموں کے رابطے میں آنے سے بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لافنگ ڈیتھ یا کورو بنیادی طور پر نیو گنی کے لوگوں میں اس وقت پیدا ہوا جب انہوں نے آخری رسومات کے دوران مردہ رشتہ داروں کا دماغ کھایا۔ خواتین اور زیادہ متاثر ہوئے کیونکہ وہ ان رسومات میں بنیادی طور پر شریک تھے۔ نیو گنی کی حکومت نے نسل کشی کے عمل کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ بیماری کے طویل انکیوبیشن پیریڈ کے پیش نظر کیسز اب بھی ظاہر ہوتے ہیں، لیکن وہ نایاب ہیں۔
لافنگ ڈیتھ یا کورو کی تشخیص
نیورولوجیکل ایگزام یا اعصابی ٹیسٹ
آپ کا ڈاکٹر کورو کی تشخیص کے لیے نیورولوجیکل ایگزام کرے گا۔ یہ ایک جامع طبی ٹیسٹ ہے جس میں شامل ہیں: طبی تاریخ،اعصابی کارکردگی، خون کے ٹیسٹ، جیسے تھائیرائڈ، فولک ایسڈ کی سطح، اور جگر اور گردے کے فنکشن ٹیسٹ (علامات کی دیگر وجوہات کو مسترد کرنے کے لیے)۔
برقی تشخیصی ٹیسٹ آپ کے دماغ میں برقی سرگرمی کی جانچ کرنے کے لیے الیکٹرو اینسفلاگرام (ای-ای-جی) جیسے ٹیسٹ استعمال کیے جاتے ہیں۔ دماغی اسکین جیسے کہ ایم آر آئی بھی کیے جا سکتے ہیں، لیکن وہ حتمی تشخیص کرنے میں مددگار نہیں ہو سکتے۔
علاج
لافنگ ڈیتھ یا کورو کا کوئی کامیاب علاج معلوم نہیں ہے۔ پرائینز، جو کورو کا سبب بنتے ہیں آسانی سے تباہ نہیں ہوسکتے ہیں۔پرائینز، سے آلودہ دماغ متعدی یعنی انفیکشن کا باعث بن سکتے ہیں، رہتے ہیں حتٰی کہ فارملڈہائیڈ میں سالوں تک محفوظ رہنے کے باوجود بھی۔ کورو والے لوگوں کو کھڑے ہونے اور حرکت کرنے میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور آخرکار اس مرض کی علامات کی وجہ سے نگلنے اور کھانے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ چونکہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے، اس سے متاثرہ افراد ابتدائی علامات کا سامنا کرنے کے بعد چھ سے 12 ماہ کے اندر کوما میں جا سکتے ہیں۔ یہ بیماری مہلک ہے اور اس سے بچنا بہتر ہے ۔
روک تھام
لافنگ ڈیتھ یا کورو ، غیر معمولی طور پر نایاب ہے۔ یہ صرف متاثرہ دماغی بافتوں کو کھانے سے یا کورو پرائینز سے متاثرہ زخموں کے رابطے میں آنے سے متاثر ہوتا ہے۔حکومتوں اور معاشروں نے 20 ویں صدی کے وسط میں اس بیماری کو روکنے کی کوشش کی اور اس کے سماجی عمل کی حوصلہ شکنی کی۔ جدید تحقیق کے مطابق، یہ بیماری تقریباً مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔
لافنگ ڈیتھ یا کورو کے انکیوبیشن کی مدت – ابتدائی انفیکشن اور علامات کے ظاہر ہونے کے درمیان کا وقت – 30 سال تک کا ہو سکتا ہے۔ کینبلزم کا رواج ختم ہونے کے کافی عرصے بعد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ آج کل، کورو کی تشخیص شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ کورو سے ملتی جلتی علامات ایک اور سنگین اعصابی عارضے یا سپنجفارم بیماری کی نشاندہی کرتی ہیں۔
میں مبین آفتاب اردو کانٹنٹ رائٹر ، میں تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوں۔ ویسے تو عمر کے لحاظ سے میں 32 سال کا ہوں پر تجربے کے اعتبار سے اپنی عمر سے کئی گنا بڑا ہوں میں ایک بچی کا باپ ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہماری نئی نسل اردو کو وہ مقام دے جو بحیثیت ایک قومی زبان اس کا حق ہے۔