سندھ کے مختلف علاقوں اور خصوصاً کراچی کے کئی مویشی فارموں میں لمپی سکن وائرس پایا گیا ۔جس میں جانوروں کے جسموں میں پھوڑے نمودار ہوتے ہیں اور اس بیماری کی وجہ سے کئی جانور مر بھی جاتے ہیں۔اس بیماری کے پھیلنے کے بعد لوگ مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں کہ آیا اس بیماری میں مبتلا گائے کا دودھ اور گوشت کھانا ممکن ہے یا نہیں۔
یہ 1929 میں کچھ ذرائع کے مطابق، اس وائرس کو پہلی بار زیمبیا میں پایا گیا تھا۔ اگلے 85 سالوں میں، یہ افریقہ کی اکثریت اور مشرق وسطیٰ میں پھیل گیا۔ یورپ میں یونان میں یہ وائرس 2015 میں داخل ہوا اور قفقاز اور روس میں بھی۔ مزید یہ کہ یہ وائرس 2016 میں مشرق میں بلقان، شمال میں ماسکو اور مغرب میں قازقستان میں پھیل گیا۔یہ پہلی بار ہندوستان میں اگست 2019 میں میور بھنج، اڈیشہ سے اس وائرس رپورٹ ہوئی تھی۔
لمپی سکن وائرس کیا ہے؟
سائنسدانوں کے مطابق لمپی سکن وائرس نامی بیماری پچھلی صدی سے جانوروں میں پائی جاتی رہی ہے۔سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے ویٹرنری میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ آریجو نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایک ایسی ہی بیماری ہے جس میں جانور کے جسم پر دانے نکل آتے ہیں۔
جو جسم کے اندر اور زبان پر بھی پھیل جاتے ہیں۔جس کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان دانوں میں پیپ بھرنے لگتی ہے اور جانور اس قدر تکلیف میں ہوتے ہیں کہ درد کی شدت کی وجہ سے وہ بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ڈاکٹر آریجو نے بتایا کہ اس بیماری کی تشخیص سب سے پہلے 1929 میں افریقی جانوروں میں ہوئی اور بعد میں ہندوستان اور سری لنکا میں ہوئی۔
ڈاکٹر آریجو نے کہا کہ جب چیزیں دنیا بھر میں حرکت کرتی ہیں تو ان کے ساتھ مکھیاں اور مچھر بھی ہوتے ہیں ،جو ڈینگی اور لمف سکن وائرس سمیت کئی طرح کی بیماریاں پھیلا سکتے ہیں۔
پاکستان میں بیماری کیسے پہنچی ہے؟
ایم ایم نیوز سے بات کرتے ہوئے کراچی کی بھینس کالونی کے ڈیری فارمر نے بتایا کہ اس بیماری نے پہلے ان کی دو بھینسوں کو متاثر کیا اور بعد میں یہ دس گایوں تک پھیل گئی۔انہوں نے کہا کہ انہیں بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بیماری بھارت اور جنوبی افریقہ سے پاکستان آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اب جبکہ ہم جانوروں کو ویکسین کر رہے ہیں، ہمارے جانوروں کے لیے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔اس بیماری کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کی ضرورت ہے۔
کیا بیماری انسانوں میں منتقل ہوسکتی ہے؟
جب سے لمپی سکن وائرس کی خبریں گردش کرنے لگیں تب سے مختلف افواہیں اڑائی جارہی ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ یہ انسانوں میں منتقل ہوا ہو لیکن ایسا نہیں ہے۔نیشنل فوڈ اینڈ سیکیورٹی کے مطابق لمپی سکن وائرس کے انسانی صحت پر کوئی منفی اثرات نہیں ہوتے اور یہ بیماری جانوروں سے انسانوں میں منتقل نہیں ہو سکتی ہے۔
مگر اس بیماری سے سکن کی الرجی والے لوگوں کو بچنا چاہیئے کیونکہ یہ خارش اور دانوں کا سبب بن سکتی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ یہ وائرس زونوٹک نہیں ہے اور دودھ یا گوشت کے استعمال سے انسانوں کو متاثر نہیں کرتا۔ بنیادی طور پر، یہ گائے اور بھینس کو متاثر کرتا ہے۔
لمپی سکن وائرس کی علامات کیا ہیں؟
جلد کی یہ بیماری ایک پیتھوجین کی وجہ سے ہوتی ہے جسے لمپی سکن وائرس کہتے ہیں۔ اس کی شناخت پہلی بار 1950 کی دہائی میں جانوروں میں ہوئی تھی اور اس کے بعد سے یہ بھیڑ اور بکریوں سمیت دیگر جانوروں میں پھیل گیا ہے۔وائرس کی وجہ سے جانوروں کی جلد موٹی اور کھردری ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے جانوروں کو حرکت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس طرح، جانوروں کی شرح اموات میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ جلد کی ایک انتہائی شدید بیماری ہے،جو مویشیوں کی جلد پر تکلیف دہ چھالوں، کٹاؤ اور السر کا باعث بنتی ہے۔یہ بیماری جانوروں سے انسانوں میں متاثرہ جانوروں کی جلد اور آلودہ کھاد اور دیگر فضلہ کے ذریعے پھیل سکتی ہے۔
یہ ایک اور بیماری ہے جس نے ڈیری اور بیف مویشیوں کو متاثر کیا ہے۔یہ وزن میں کمی، جلد اور بالوں کے گرنے، اور بچھڑوں میں صحت کے دیگر مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔یہ ایک سنگین مسئلہ نہیں سمجھا جاتا ہے لیکن بہت سے پروڈیوسروں کے پاس اتنا تجربہ یا تربیت نہیں ہے کہ وہ اسے پہچان سکیں یا اس کا علاج کرسکیں۔
کیا لمپی سکن وائرس والے جانوروں کا گوشت اور دودھ قابل استعمال ہوتا ہے؟
ایم ایم نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے برنس روڈ میٹ منڈی کے قصابوں کا کہنا تھا کہ جن جانوروں کو یہ بیماری ہوتی ہے۔ ان کے گوشت کے اندر موٹے دھبے ہوتے ہیں اس لیے اگر آپ گوشت لینے جائیں تو گوشت دیکھیں اور پھر خریدیں۔
نیشنل فوڈ اینڈ سیکیورٹی ایجنسی کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے: انسانی استعمال کے لیے بالکل محفوظ ہے۔ حال ہی میں ورلڈ اینیمل ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھی اس بیماری سے متاثرہ جانوروں کے گوشت کو قابل استعمال قرار دیا۔
ورلڈ اینیمل ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ لمپی سکن وائرس سے متاثرہ جانوروں کا گوشت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہر شخص کو چاہیے کہ خوف کے مارے گوشت یا دودھ کو ترک کرنے کی بجائے احتیاط کے ساتھ استعمال کریں۔ جب آپ خریداری کرنے جائیں تو گوشت کو تازہ رکھنے کی کوشش کریں، پھر اسے گھر لے آئیں اور اسے اچھی طرح پکانے کے بعد استعمال کریں۔کیونکہ یہ بیماری گائے کے اندر اور خاص طور پر باہر سے پاکستان آنے والی گایوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
لمپی سکن وائرس کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟
لمپی سکن وائرس ، کنٹرول کرنے اور روک تھام چار اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، یعنی موومنٹ کنٹرول (ایسے جانوروں کو دوسری جگہ منتقل نہ کیا جائے)، ویکسینیشن، جلد ذبح کیا جائے، اور اس وائرس کو روکنے کی بہترین حکمت عملی اپنائی جائے۔
مخصوص کنٹرول کرنے کے منصوبے ہر ممالک کے درمیان مختلف ہوتے ہیں لہذا متعلقہ حکام اور جانوروں کے ڈاکٹروں سے مناسب طریقے سے مشورہ لیا جانا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کنٹرول کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ ویکسینیشن ہے۔
لمپی سکن وائرس کا علاج کیا ہے؟
لمپی سکن وائرس کا علاج ابھی تک موجود نہیں ہے لیکن اس پر قابو پانے کا سب سے مؤثر ذریعہ ویکسینیشن ہے۔ اس کے علاوہ، جلد میں ہونے والے انفیکشن کا علاج غیر سٹیرایڈیل اینٹی انفلیمیٹریز اور مناسب ہونے پر اینٹی بایوٹک سے بھی کیا جا سکتا ہے۔اگر اس سے الرجک کے لوگوں متاثر ہوتے ہیں تو فوری جلد کے ڈاکٹر سے کنسلٹ کریں تاکہ بروقت علاج ممکن ہوسکے۔
تو اب ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وائرس مویشیوں میں شدید بیماری کا باعث بنتا ہے جس کی خصوصیت جلد میں نوڈول ہوتی ہے۔ اس کی منتقلی کیڑے مکوڑوں کے ذریعے ہو سکتی ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے ویکسینیشن سب سے بہتر بچاؤ کا طریقہ ہے۔ اس سے متاثرہ جانور میں اہم معاشی نقصان ہوتا ہے۔
لمپی سکن وائرس کا ملک پر بھی تباہ کن اثر پڑسکتا ہے، جہاں زیادہ تر ڈیری فارمرز یا تو بے زمین یا معمولی زمیندار ہیں اور دودھ پروٹین کے سب سے سستے ذرائع میں سے ایک ہے۔اس لیے اس بیماری کی روک تھام کے لیے ایسے اقدامات کرنے چاہیئے جو ہر مویشی پالنے والے کی پہنچ میں ہو ،اور وہ اس بیماری کو روکنے میں اہم کردار ادا کرسکیں۔ہم سب کا فرض ہے کہ ہم مل کر اس کو روکنے میں مدد کریں تاکہ جانوروں کے ساتھ انسانی جان کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچے ہمیں ایک قوم کی طرح مل کر سوچنے کی ضرورت ہے۔
مرہم کی ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں پہ کلک کریں۔
Dania Irfan is a distinguished Urdu writer with a prolific portfolio of blogs and articles that delve into the intricacies of language and culture. With years of experience in the field, her expertise is sought after by readers and institutions alike.