تیس سال کی عمر اگرچہ بہت زیادہ عمر نہیں ہوتی ہے ۔ مگر خواتین کےلیے یہ وقت اس وجہ سے بھی زیادہ معنی رکھتا ہے کیوں کہ اگر اس دوران خاتون حاملہ ہو جائيں تو اس دوران عمر کا بڑھنا ان کے لیۓ کئی قسم کی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔
آجکل کے دور میں، جب کہ خواتین شادی کو تعلیم کی تکمیل اور کیرئیر کے حصول کے بعد کا کام سمجھتی ہیں، تو اس وجہ سے اکثر ایسی خواتین میں حمل ٹھرنے کی عمر تیس سال تک ہو سکتی ہے ۔ ماہر امراض نسواں کا یہ ماننا ہے کہ 30 سال کی عمر میں حمل ٹھرنے کے سبب خواتین کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تیس سال کی عمر میں حمل میں پیچیدگیاں۔
یاد رکھیں اگر آپ کی عمر تیس سال سے زیادہ ہے اور آپ حاملہ ہیں تو اس صورت میں اپنی ماہر امراض نسواں ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اس سے مشورہ کریں اگر آپ ماہر ڈاکٹر سے آن لائن مشورہ کرنا چاہتی ہیں تو مرہم ڈاٹ پی کے کی ویب سائٹ وزٹ کریں یا پھر 03111222398 پر رابطہ کریں۔
تیس سال کی عمر میں حمل کے ٹھرنے میں دشواری۔
تیس سال کی عمر وہ عمر ہوتی ہے جب کہ خواتین کے جسم میں مختلف قسم کی ہارمونل تبدیلیاں واقع ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر گزرتے سال میں ان کی زرخیزی میں کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے، جو ان کے اندر حمل کے ٹھرنے کے امکانات کو کم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، خواتین میں 29 سال سے 35 سال کی عمر کے دوران ایسا بدلاؤ آتا ہے جو ان کے اندر حمل کے ٹھرنے کے امکانات کو کم کر دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس عمر میں خواتین کے اندر انڈے پیدا کرنے کی صلاحیت کمی کا شکار ہو جاتی ہے اور اس وجہ سے ماہرین کے مطابق، اس عمر میں اویلیوشن سائیکل کے دوران حمل کے ٹھرنے کے امکانات صرف 15فی صد تک رہ جاتے ہیں۔
بچے کی پیدائش میں پیچیدگی۔
تیس سال کی عمر میں اگر حمل ٹھر بھی جاۓ تو اس کے ضائع ہونے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں امریکہ کے ادارے سوسائٹی فار ری پروڈکٹو سائنس کے مطابق، تیس سال کے بعد حمل کے ضائع ہونے کی شرح 20 فی صد تک ہوتی ہے جو کہ ایک بڑی شرح ہے۔
اس عمر میں حمل کے ٹھرنے کے بعد اس میں نارمل ڈلیوری کے امکانات بھی بہت کم ہوتے ہیں اور زیادہ تر میں سی سیکشن ہی ہوتا ہے جب کہ اس عمر کی ماؤں کے جو بچے پیدا ہوتے ہیں ان کی صحت کو بھی کافی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور ان کے ڈاون سنڈروم کا شکار ہونے کے امکانات بھی کافی ہوتے ہیں لیکن یاد رکھیں! ان پیچیدگیوں سے باقاعدہ پلاننگ کر کے بچا جاسکتا ہے۔
کروموسومل ایب نارمیلیٹی کے امکانات۔
جن ماؤں کی بچے کی پیدائش کے وقت تیس سال یا اس سے زيادہ ہوتی ہے ایسے بچوں میں کروموسومل ایب نارمیلیٹی کے امکانات کافی بڑھ جاتے ہیں اور ہزار بچوں میں سے ایک بچہ ایب نارمل ہوتا ہے جس کے دماغ کی نمو اس کے جسم کی نمو کے مقابلے میں سست روی کا شکار ہوسکتی ہے۔لہذا ایسی خواتین کو حمل کے ٹھرنے کے بعد سے ہر ہر لمحہ اپنے ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرنا لازمی ہوتا ہے۔
ماں کی صحت کو خطرات۔
وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے جسم میں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ کچھ نسوانی مسائل جن میں اینڈومیٹروسس ، فائبرائيڈ وغیرہ شامل ہیں۔ حمل کے ٹھرنے میں مسائل پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہیں اور اگر حمل ٹھر جاۓ تو اس میں پیچیدگیاں بھی پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔اس کے علاوہ عمر کے ساتھ ہائی بلڈ پریشر ، ذیابطیس ، گردے اور دل کے امراض بھی ماں اور بچے کی زندگی کو خطرات میں ڈال سکتے ہیں۔
حمل کے ضائع ہونے کے خطرات
تیس سال کی عمر سے قبل فیملی پلان کرنے کا بہترین وقت ہوتا ہے لیکن تیس سال کی عمر کے بعد کسی بھی عورت کا جسم میچور ہو جاتا ہے اس وقت میں انڈے بننے کا عمل سست ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے حمل کے ٹھرنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں اور اگر حمل ٹھر بھی جاۓ تو کروموسومل ایب نارمیلیٹی کی وجہ سے ابتدائی طور پر پہلے تین مہینوں میں ہی حمل ضائع ہو جاتا ہے۔
جڑواں بچوں کے امکانات میں اضافہ۔
ہارمون کے اتار چڑھاؤ کے سبب تیس سال کے بعد حمل ٹھرنے کی صورت میں جڑواں یا دو سے زیادہ بچوں کی پیدائش کا امکان زیادہ ہوتا ہے اس کا سبب بعض اوقات وہ ادویات اور طریقہ علاج بھی ہو سکتے ہیں جو کہ تیس سال کی عمر کے بعد خواتین حمل کے ٹھرانے کے لیۓ استعمال کرتی ہیں۔
امید کی کرن۔
اگرچہ تیس سال کی عمر کے بعد حمل کا ٹھرنا اور اس کا صحت مند طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچنا دشوار ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ہے ۔ اس کے لیۓ موجودہ دور میں ماہر امراض نسواں ڈاکٹرز کے زیر نگرانی ایسے بہت سارے طریقے نکال لیۓ گۓ ہیں جن کے ذریعے اس عمر میں بھی نہ صرف حمل ٹھر سکتا ہے۔ بلکہ یہ حمل کافی حد تک نارمل بھی ہو سکتا ہے۔
مرہم کی ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں پہ کلک کریں۔
Android | IOS |
---|---|