ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا طریقہ کار دنیا بھر کے ہزاروں بے اولاد جوڑوں کے لیۓ ایک نعمت سے کم نہیں ہے ۔ جدید میڈیکل سائنس کی اس دریافت نے بہت سارے ایسے شادی شدہ جوڑوں کی دیرینہ خواہش کو پورا کر دیا ہے وہیں بہت سارے کم علم لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے حوالے سے اتنے غلط نظریات رکھتے ہیں کہ مجبورا جو افراد ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے بچے پیدا کر بھی رہے ہوتے ہیں وہ بھی اس سارے عمل کو معاشرے سے پوشیدہ رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں
ٹیسٹ ٹیوب بےبی طریقہ کار سے کیا مراد ہے ؟
جیسا کہ اس کے نام سے بھی ظاہر ہے کہ اس طریقہ کار میں ٹیسٹ ٹیوب کا استعمال کیا جاتا ہے مگر حقیقت میں نر اسپرم کا مادہ انڈوں سے ایک ٹیری ڈش کے اندر ملاپ کروایا جاتا ہے
ٹیسٹ ٹیوب بے بی درحقیقت وہ طریقہ کار ہے جس کو آئی وی ایف بھی کہا جاتا ہے اس طریقہ کار میں مادہ انڈوں کا مرد کے اسپرم سے بغیر مباشرت کے بیرونی طور پر ملاپ کروایا جاتا ہے اور اس ملاپ کے نتیجے میں بننے والے خلیہ کو ماں کے رحم میں رکھ دیا جاتا ہے جو کہ نارمل حمل کی طرح ماں کے رحم میں پروان چڑھتا ہے اور نمو کی مدت پوری ہونے کے بعد پیدا ہوتا ہے
ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں موجود سوالات
عام طور پر چونکہ یہ طریقہ کار زیادہ رائج نہیں ہے اس وجہ سے عام لوگوں کے دل میں اس کے حوالے سے بہت سارے غلط نظریات موجود ہیں جس کی وجہ سے اکثر بے اولاد جوڑے صرف اور صرف لوگوں کی باتوں کی وجہ سے یہ عمل نہیں کرواتے ہیں
ٹیسٹ ٹیوب بے بی جائز نہیں ہوتے ہیں
ہمارے معاشرے میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے طریقہ کار کےحوالے سے لوگوں کے دل میں یہ خیال ہوتا ہے کہ جو بچہ میاں بیوی کی مباشرت کے بغیر پیدا ہو رہا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے تو اس حوالے سے کچھ شرائط کے ساتھ مزہبی حلقوں کی جانب سے یہ فتوی جاری کیا گیا ہے کہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی جائز ہے
اگر میاں بیوی کسی بھی وجہ سے بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں ہیں اور میاں کے اسپرم کا بیوی کے انڈوں سے ملاپ کروا کر اگر بیوی کے رحم میں رکھا جاۓ تو اس صورت میں یہ بچہ اور طریقہ کار جائز ہے
لیکن اگر میاں بیوی کے انڈوں اور اسپرم کا ملاپ کروا کر کسی اور عورت کے رحم میں رکھا جاۓ تو اس صورت میں یہ عمل جائز نہین ہے
اگر کسی اور مرد کے اسپرم کا بیوی کے انڈوں سے ملاپ کروا کر اسی کے رحم میں رکھا جاۓ تو اس صورت میں بھی یہ جائز نہیں ہے
اپنی پسند کی صورت شکل کا بچہ حاصل کریں
مردانہ اسپرم اور انڈوں کے آرٹیفیشل ملاپ کے سبب لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر ہوتا ہے کہ جس طرح یہ طریقہ کار مصنوعی ہے اسی طرح بچے کی صورت شکل اس کی جنس کا تعین بھی اپنی مرضی سے کیا جا سکتا ہے۔
یہ ایک غلط خیال ہے جس طرح ایک نارمل ڈلیوری ہوتی ہے اسی طرح اس طریقہ کار میں ملاپ کے بعد ان خلیات کو یا ایمبریو کو ماں کے رحم میں رکھ دیا جاتا ہے بچے کی شکل و صورت اور جنس کا انحصار ماں کے خلیات اور باپ کے اسپرم پر ہوتا ہے
ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہمیشہ بیمار اور کمزور رہتے ہیں
جس طرح نارمل طریقے سے پیدا ہونے والے بچے بعض اوقات کمزور اور بیمار پیدا ہو سکتے ہیں اسی طرح ٹیسٹ ٹیوب بے بی بھی بیمار ہو سکتے ہیں یا نازک ہو سکتے ہیں لیکن ان کے حوالے سے یہ سمجھنا کہ وہ ہیمشہ بیمار ہی رہیں گے ایک خام خیال ہے
ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی ناف نہیں ہوتی ہے
غلط نظریات میں سے یہ بھی ایک غلط نظریہ ہے جو کہ لوگوں کے دلوں میں موجود ہے کہ مصنوعی طریقے سے ماں کے رحم میں رکھا جانے والا ایمبریو بغیر ناف کے پیدا ہوتا ہے حب کہ حقیقت میں جس وقت ایمبریو کو ماں کے رحم میں رکھا جاتا ہے تو وہ نمو تب ہی پاتا ہے جب وہ ماں کے رحم سے ایمبالیکل کورڈ کی مدد سے جڑ جاتا ہے
ماں کے رحم میں موجود بچہ اسی راستے سے اپنی غذا اور سانس حاصل کرتا ہے جس کو ڈلیوری کے بعد کاٹ کر الگ کیا جاتا ہے
یہ طریقہ کار بہت مہنگا اور تکلیف دہ ہوتا ہے
عام افراد کے ذہن میں یہ تاثر موجود ہے کہ یہ طریقہ کار بہت مہنگا اور تکلیف دہ ہے اس حوالےسے یہ بات تو کسی حد تک حقیقت ہے کہ یہ طریقہ کار کسی حد تک مہنگا ہے مگر ساری عمر در در بھٹکنے سے بہتر یہ طریقہ علاج ہے جس کی کامیابی کی شرح بھی کافی زیادہ ہے ۔
جہاں تک تعلق اس طریقہ علاج کے تکلیف دہ ہونے کا ہے تو اس میں صرف ماں کو اس وقت تکلیف ہوتی ہے جب اس میں سے سوئی کے ذریعے اس کے مادہ خلیات نکالے جاتے ہیں باقی ملاپ کے بعد خلیات کو ماں کے رحم میں رکھنے کا عمل تکلیف دہ نہیں ہوتا ہے
تاہم اس طریقہ کار کے دوران ہارمون ٹریٹمنٹ کے ذریعے ماں کے جسم کو ایمبریو کے لیۓ تیار کیا جاتا ہے جو کہ ایک طویل طریقہ کار ہے
پاکستان کے اندر ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا طریقہ علاج کا آغاز 1989 سے کامیابی سے ہوا ۔ اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق 5000 بچے اس طریقہ کار کے مطابق پیدا ہو چکے ہیں ۔ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی رہنمائی کے لیۓ مرہم ڈاٹ پی کے کی ویب سائٹ وزٹ کریں یا پھر 03111222398 پر رابطہ کریں